سلگتی شاخ سے خوشبو کو مہکانا نہیں اچھا
اگر خود بھی تڑپتے ہو تو تڑپانا نہیں اچھا
یہاں پستہ قدوں کی بھیڑ ہے لیکن ذرا ٹھہرو
قدو قامت کا نظروں میں یہ پیمانہ نہیں اچھا
خوشی کا ایک لمحہ بھی کئی صدیوں پہ بھاری ہے
مگر تیرا یہاں سے روٹھ کر جانا نہیں اچھا
سروں پہ دھوپ رہتی ہےسدا سایہ ہی دیتے ہیں
یہاں اشجار کی راہوں میں ویرانہ نہیں اچھا
فسردہ شہر میں ہر آدمی خوفِ وبا میں ہے
کسی کی بے بسی پہ اتنا مسکانا نہیں اچھا
یقیں کی حد میں رہ کر ہی خدا کے آدمی ہیں ہم
زمیں کے عشق میں جنت کو ٹھکرانا نہیں اچھا
نگاہوں میں اداسی ہے لبوں پہ گہری خاموشی
سکوتِ ذات کو اتنا بھی تڑپانا نہیں اچھا
چلے جانے پہ اس کے رو رہی ہوں آج لاحاصل
غموں کو دل کی وادی میں یوں ٹھہرانا نہیں اچھا
اگر ترکِ تعلق میں یہ دنیا چھوڑ دی وشمہ
میں اتنا جانتی ہوں اب پلٹ آنا نہیں اچھا