Monday 2 January 2017

سلگتی شاخ سے خوشبو کو مہکانا نہیں اچھا


سلگتی شاخ سے خوشبو کو مہکانا نہیں اچھا
اگر خود بھی تڑپتے ہو تو تڑپانا نہیں اچھا

یہاں پستہ قدوں کی بھیڑ ہے لیکن ذرا ٹھہرو
قدو قامت کا نظروں میں یہ پیمانہ نہیں اچھا

خوشی کا ایک لمحہ بھی کئی صدیوں پہ بھاری ہے
مگر تیرا یہاں سے روٹھ کر جانا نہیں اچھا

سروں پہ دھوپ رہتی ہےسدا سایہ ہی دیتے ہیں
یہاں اشجار کی راہوں میں ویرانہ نہیں اچھا

فسردہ شہر میں ہر آدمی خوفِ وبا میں ہے
کسی کی بے بسی پہ اتنا مسکانا نہیں اچھا

یقیں کی حد میں رہ کر ہی خدا کے آدمی ہیں ہم
زمیں کے عشق میں جنت کو ٹھکرانا نہیں اچھا

نگاہوں میں اداسی ہے لبوں پہ گہری خاموشی 
سکوتِ ذات کو اتنا بھی تڑپانا نہیں اچھا

چلے جانے پہ اس کے رو رہی ہوں آج لاحاصل 
غموں کو دل کی وادی میں یوں ٹھہرانا نہیں اچھا

اگر ترکِ تعلق میں یہ دنیا چھوڑ دی وشمہ
میں اتنا جانتی ہوں اب پلٹ آنا نہیں اچھا